Orhan

Add To collaction

وحشتِ دل

وحشتِ دل از کنول اکرم قسط نمبر5

وہ یونیورسٹی پہنچی تو خلافِ توقع افرحہ اسے سامنے ہی نظر آگئی جبکہ ہمیشہ وہ اچانک کہیں سے نمودار ہو کے اسے ڈرا دیتی تھی اور آج وہ گراؤنڈ میں سامنے ہی بیٹھی تھی۔۔۔۔ وہ ناک کی سیدھ میں چلتی ہوئی بغیر اِدھر اُدھر دیکھے اس کی طرف بڑھی جو کہ سوچوں میں گُم گراؤنڈ کی گھاس نوچنے میں مگن تھی ۔۔۔۔۔ وہ دھب سے اس کے پاس بیٹھی لیکن اس نے ساوی کے آنے کا کوئی نوٹس نہیں لیا ۔۔۔۔ افی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اس کا کندھا جھنجھوڑتے ہوئے بولی ہہہ ہاں کیا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ جیسے نیند سے جاگی میں تو ٹھیک ہوں مگر تمہیں کیا ہوا ہے کہاں کھوئی ہو۔۔۔۔ وہ اُس کے چہرے کی طرف دیکھتی ہوئی بولی جس پہ پریشانی کے واضح آثا ر تھے۔ سا ساوی مم میرے بابا۔۔۔۔۔۔ وہ اتنا کہتے ہی رو پڑی۔ کیا ہوا ہے انکل کو تم رو کیوں رہی ہو ۔۔۔۔وہ اُس کا کندھا سہلاتی ہوئی بولی۔ وہ ٹھیک نہیں ہیں ساوی ۔۔۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ اُنہیں بلڈ کینسر ہے وہ بھی لاسٹ سٹیج پر اُن کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے ۔۔۔۔وہ روتے ہوئے پوری بات بتا گئی۔ یہ کیا کہہ رہی ہو تم وہ تو بلکل ٹھیک تھے اور تمہیں پتہ نہیں چلا کہ اُن کو کوئی بیماری ہے ۔۔۔۔وہ پریشانی سے پوچھ رہی تھی ۔ بابا نے کبھی محسوس ہی نہیں ہونے دیا کہ وہ ٹھیک نہیں ہیں اُنہیں پتہ تھا کہ اُن کو یہ خطرناک بیماری ہے مگر اُنہوں نے مجھے کبھی کُچھ نہیں بتایا ۔۔ تت تم جانتی ہو نا اُن کے علاوہ میرا اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔۔۔۔۔مم میں کیسے رہوں گی ان کے بغیر ایک بار بھی میرا نہیں سوچا اُنہوں نے۔۔۔ ان کے بعد میرا کیا ہو گا ۔۔۔۔۔وہ ساوی کے گلے لگی روتے ہوئے بولی۔ وہ سچ ہی تو کہہ رہی تھی اس دنیا میں اُس کے بابا کے علاوہ اس کا کوئی نہیں تھا اس کے ماں اور باپ دونوں ہی اکلوتے تھے اور اُن کی شادی بھی پسند سے ہوئی تھی افرحہ کے بعد اُن کو خدا نے اور اولاد سے نہیں نوازا تھا اور اس طرح ان دونوں کی اولاد بھی اکلوتی تھی اس کے دادا دادی تو اس کے بچپن میں چل بسے تھے مگر نانا نانی جب وہ سولی سال کی ہوئی تب انہیں اکیلا کر گئے وقت نے وقت پہ ہی ان کو اس دنیا سے رخصت کر دیا تھا۔۔اس کی ماما کی ڈیتھ بھی تین سال پہلے ہوئی تھی اور اب اس کے پاس صرف اس کے بابا ہی تھے اس کی زندگی کا واحد سہارا اس کے جینے کی وجہ جب وہ ہی نہیں رہے گے تو وہ جی کر کیا کرے گی۔۔۔۔ ایسے مت بولو افی وہ ٹھیک ہو جائیں گے مایوس مت ہو خدا ہے نہ وہ سب ٹھیک کر دے گا اور تم اکیلی نہیں ہو میں ہوں نہ تمہارے ساتھ ۔۔۔ ماما بابا ہم سب تمہارے اپنے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔وہ اسے تسلی دیتے ہوئے بولی ہممم خدا پہ ہی بھروسہ ہے اب تو اور تم تو میری زندگی ہو۔۔۔ افرحہ اس کے گلے لگتی بولی۔ چلو اُٹھو اب یہاں سے چل کے منہ ہاتھ دھو اور ٹینشن بلکل مت لو اللّہ بہت بڑا کار ساز ہے وہ کبھی انسان کی طاقت سے زیادہ نہیں آزماتا۔۔وہ اسے سمجھا رہی تھی۔ بے شک۔۔۔۔اور وہ سمجھ بھی گئی تھی۔۔ پھر وہ اسے واش روم کی طرف لے کے گائی تھی تا کہ اس کا حلیہ درست کرا سکےابھی ان کو کلاس بھی لینی تھی۔۔۔۔۔۔


ساوی ابھی یونی سے واپس نہیں آئی تھی حنا بیگم اور وقار صاحب اس وقت نادیہ بیگم اور مراد صاحب کے کمرے میں موجود تھے مراد صاحب اور وقار صاحب بزنس کی باتیں کر رہے تھے جبکہ نادیہ بیگم اور حنا بیگم گھریلو باتوں میں مصروف تھی۔ نادیہ وہ میں تم سے کُچھ ضروری بات کرنا چاہتی تھی ۔۔۔ حنا بیگم دھیمے سے بولیں جی بھابھی کہیئے کیا بات کرنی تھی۔۔۔۔وہ اُن کی طرف متوجہ ہوئیں ۔۔۔۔ تم نے شایان اور ساوی کی شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے ؟؟؟ شادی کے بارے میں۔۔۔وہ حیران ہوئیں ہاں اب دیکھو دونوں بچے ہی اب بڑے ہو چکے ہیں تو ان کی شادی بھی تو کرنی ہے نہ۔۔۔۔۔حنا بیگم سمجھانے والے انداز میں بولیں۔۔۔ ساوی تو ابھی بس بیس سال کی ہوئی ہے بھاھی اور ابھی وہ پڑھ رہی ہے میں اتنی جلدی اس کی شادی نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔۔اور شایان سے میں نے پوچھا تھا وہ ابھی شادی نہیں کرنا چاہتا وہ پہلے اپنا کیرئیر بنانا چاہتا ہے ۔۔۔۔۔۔نادیہ بیگم نے جواب دیا۔۔ کیرئیر کیا بنانا ہے اچھا خاصہ تو بزنس ہے بھائی صاحب کا اور شادی آج نہیں تو کل کرنی ہی ہے نہ۔۔۔۔۔ حنا ناگواری سے بولیں جی بھابھی کرنی ہے شادی مگر جب میرے بچے راضی ہوں گے تب میں ان پہ اپنا کوئی فیصلہ مسلط نہیں کرنا چاہتی ۔۔۔۔۔ اب کہ اُنہوں نے صاف جواب دیا۔ ہاں تو میں کون سا ابھی کہہ رہی ہوں جب وہ راضی ہو گا تب ہی کریں گے اور ابھی تو میری عانیہ بھی پڑھ رہی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حنا بیگم نے کہا تو وہ اُنہیں دیکھ کے رہ گئیں ۔۔۔ مطلب میں سمجھی نہیں آپ کی بات ۔۔۔۔ نادیہ بیگم سوالیہ ہوئیں ۔۔۔۔ مطلب یہ کہ آج کا دور اتنا اچھا نہیں ہے اب شادی کرنی ہی ہے تو ضروری ہے کہ غیروں میں کی جائے اس لیے میں تم سے ساوی کے لیے اشعر کا اور عانیہ کے لیے شایان کا رشتہ مانگ رہی ہوں۔۔۔۔اب کہ اُنہوں نے صاف الفاظ میں اپنی بات کہی ۔۔۔۔۔ اور اُن کی بات سُن کے نادیہ بیگم ہکّا بکّا رہ گئیں اُنہیں کہاں اُمید تھی کہ ان کے بھائی اور بھابھی اس طرح کی بھی خواہش رکھتے ہوں گے۔۔۔۔ معاف کیجئے گا بھابھی مگر میں ساوی کی شادی اشعر سے نہیں کرا سکتی آپ نے بلکل درست کہا خاندان سے باہر شادیاں نہیں کرنی چاہئیے اور میں ساوی کی شادی خاندان سے باہر کروں گی بھی نہیں ۔۔۔۔۔۔ہم نے بہت پہلے ہی درید اور ساوی کی شادی کا سوچ لیا تھا تو ساوی کی شادی کہیں اور کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ……اور جہاں تک بات ہے شایان اور عانیہ کی تو عانیہ مجھے بھی بہت عزیز ہے میرا اپنا خون ہے مجھے بہت خوشی ہو گی کہ وہ میرے گھر کی بہو بنے مگر میں شایان کی رضامندی کے بغیر اتنا بڑا فیصلہ نہیں لے سکتی جب وہ آئے گا تو میں اُس سے اُس کی مرضی پوچھ کے ہی آپ کو بتاؤں گی تب تک آپ کسی سے بھی اس بارے میں بات مت کیجئے گا خاص طور پہ بچوں سے میں نہیں چاہتی کہ ان کو پہلے سے ہی پتہ چل جائے اور بعد میں ان میں سے کوئی راضی نہ ہوا تو دوسرے کو دُکھ ہو گااور ابھی درید اور ساوی کو بھی اس بارے میں کُچھ نہیں پتہ اور وقت سے پہلے میں بتانا بھی نہیں چاہتی وہ آپس میں بہت اچھے دوست ہیں اور میں اُن کے دوستی جیسے رشتے کو خراب نہیں کرنا چاہتی۔۔۔۔۔نادیہ بیگم تفصیل سے بتاتے ہوئے دو ٹوک لہجے میں بولیں مگر اشعر تمہارا اپنا خون ہے تمہارے بھائی کا بیٹا جب کہ درید کا تو تم سے سگا کوئی رشتہ بھی نہیں ہے وہ بھائی صاحب کا سگا بھتیجا ہے تمہارا نہیں۔۔۔۔۔۔حنا بیگم کو ساوی اور درید کا سُن کے پتنگے ہی لگ گئے تھے اور وہ تلخی سے بولیں تھیں ۔۔ بھابھی میں آپ کی بہت عزّت کرتی ہوں اس لئیے کہہ رہی ہوں آپ نے آج تو کہہ دیا آئندہ ایسا مت کہئیے گا ۔۔۔۔۔درید میرا خون نہیں ہے تو کیا ہوا وہ مجھے میرے بچوں سے بڑھ کر عزیز ہے ماں بن کر پالا ہے میں نے اسے اور رشتے صرف خون کے ہی نہیں ہوتے احساس کے بھی ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔اور وہ مجھے اپنی جان سے بھی زیادہ پیارا ہے اُس کی خوشی مجھے سب سے زیادہ عزیز ہے اور اُس کی خوشی ساوی ہے جسے میں اُس سے نہیں چھین نہیں سکتی۔۔۔۔۔۔۔نادیہ بیگم کو اُن کی بات ناگوار گُزری تھی اور انہوں نے اپنی ناگواری چھپائی بھی نہیں تھی۔۔ اور ساوی اُس کی خوشی کا کیا ؟؟؟ کیا پتہ وہ درید کو پسند ہی نہ کرتی ہو ۔۔۔۔۔حنا بیگم نے ایک اور نُکتہ اُٹھایا جب کہ اندر ہی اندر وہ سُلگ رہی تھیں ۔۔ وہ میری بیٹی ہے اپنی پرورش پر مجھے پورا یقین ہے وہ اپنے ماں باپ کی بات کبھی نہیں ٹال سکتی اسے ہماری خوشی خود سے بڑھ کر عزیز ہے۔۔۔۔۔ نادیہ بیگم ناز سے بتا رہی تھیں ۔۔۔۔ ٹھیک ہے میں تمہیں ساوی کے بارے میں فورس نہیں کروں گی مگر عانیہ اِسی گھر کی بہو بنے گی۔۔۔اُنہوں نے دو ٹوک کہا تھا ۔ جوڑے تو آسمانوں پہ بنتے ہیں اگر شایان کے ساتھ ہی عانیہ کا نصیب جڑا ہے تو وہ شایان عانیہ کا ہی نصیب ہو گا باقی خدا بہتر جانتا ہے ۔۔۔۔۔نادیہ بیگم نے بات ختم کی تھی۔۔۔ بھئ ایسی کون سی باتیں لے کے بیٹھ گئی ہیں آپ جو ختم ہی نہیں ہو رہیں ۔۔۔۔مراد صاحب نے پوچھا تھا۔۔ کُچھ نہیں بس یوں ہی گھر کی ہی باتیں کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ نادیہ بیگم نے جواب دیا تھا ۔۔۔ تو پھر اگر باتیں ختم ہو گئیں ہیں تو چائے تو پلا دیں بہت طلب ہو رہی ہے ۔۔۔۔۔ وقار صاحب نے کہا تھا جی جی ضرور بھائی صاحب ابھی بنا کہ لاتی ہوں ۔۔۔۔ نادیہ بیگم اُٹھتے ہوئے بولیں۔۔ چلو میں بھی چلتی ہوں ۔۔۔۔حنا بیگم بھی ساتھ ہی اُٹھ گئی تھیں ۔۔۔


وہ اس وقت ساحل سمندر پہ گزری یادوں میں کھویا ہوا تھا ۔۔۔۔۔ جب وہ اس کے ساتھ بیچ پہ آتی تھی تو اُس کی شرارتیں ہی ختم نہیں ہوتی تھی کبھی اس پہ پانی پھینکتی اور کبھی پانی میں دور تک جا کہ اسے ڈرا کر رکھ دیتی ۔۔۔۔۔ وہ اسے یاد کرتے جانے انجانے میں ہی مسکرا رہا تھا ہونٹوں پہ مسکراہٹ تھی تو دل میں وحشت بھری ہوئی تھی۔۔۔ ‏ایسی وحشت بھی نصیبوں سے مِلا کرتی ہے، ہم تجھے ہار کے ہنستے بھی ہیں، خوش رہتے ہیں.. اور اب آج آٹھ مہینے گزر جانے کے بعد بھی وہ اسے نہیں ملی تھی کوئی لمحہ کوئی دن کوئی رات ایسی نہیں جاتی تھی جب وہ اسے یاد نہ کرتا ہو اس کی ہر آتی سانس اُس کے نام کا ورد کرتی تھی اور جب یہ یادیں حد سے بڑھ جاتیں تو تو وہ یہاں اس کی پسندیدہ جگہ پہ آجاتا تھا خود کو سکون دینے کے لیے۔۔۔۔۔ ابھی اسے آئے کُچھ دیر ہی ہوئی تھی جب اُس کا فون بج اُٹھا ۔۔۔ ہیلو۔۔۔۔۔ بیٹا آپ جلدی گھر آجائیں بیگم صاحبہ کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے ۔۔۔۔ بوا کی گبھرائی ہوئی آواز آئی تو وہ خود بھی گھبرا گیا۔ میں آرہا ہوں آپ اُن کا خیال رکھیں ۔۔۔۔اس نے بوا کو تاکید کی اور گاڑی کی طرف بڑھا ۔۔۔ وہ ریش ڈرائیو کرتا آدھے گھنٹے کا فاصلہ پندرہ منٹ میں طے کر کے گھر پہنچا بوا لاونج میں ہی کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی بیگم صاحبہ بےہوش ہوگئی ہیں ۔۔۔۔بوا نے پریشانی سے اطلاع دی۔ وہ گہری سانس بھرتا اُن کے کمرے کی طرف بڑھا اور آگے بڑھ کر اُن کا کمزور اور نحیف سا وجود اُٹھا کر باہر کی طرف بڑھ گیا۔۔۔۔اور گاڑی میں پچھلی سیٹ پر لٹا دیا بوا بھی اُن کا سر گود میں رکھ کر پیچھے ہی بیٹھ گئیں اور آیت الکرسی کا ورد کر کے اُن کے چہرے پہ پھونک مارنے لگیں ۔۔۔۔۔ آدھے گھنٹے میں وہ لوگ ہسپتال پہنچے اُنہیں ایمرجنسی میں لے جایا گیا ۔۔۔۔ اور وہ خود نڈھال سا بینچ پر بیٹھ گیا یہ سب اُسکے خود کی وجہ سے ہو رہا تھا سب کا ذمہ دار وہ تھا آج اگر وہ اِس حالت میں تھیں تو صرف اُس کی وجہ سے نہ وہ وہ سب کرتا اور نہ آج ایسا ہوتا اس نے سب کا مان بھروسہ جو وہ اس پہ کرتے تھے توڑ دیا تھا ۔۔۔۔۔ اسے خود سے نفرت ہونے لگی تھی جہ چاہتا تھا کہ وہ کُچھ ایسا کرے کہ سب کُچھ ٹھیک ہو جائے وقت کو واپس موڑ دے جہاں سب خوش رہتے تھے کوئی دُکھ نہیں تھا ان کی زندگی مگر ایسا صرف وہ سوچ سکتا تھا ایسا ممکن تو نہیں تھا ۔۔۔۔ وہ کھڑکی کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا اور باہر کی دنیا کو دیکھنے لگا لوگ آریے تھے جا رہے تھے ایک دوسرے سے بے نیاز دوسروں کے غموں سے لاپرواہ ۔۔۔اپنا غم تو اپنا ہوتا ہے نا دوسروں کا ہمارے غم سے کیا لینا دینا۔۔۔۔۔۔ وہ کھوئے کھئے سے انداز سے باہر دیکھ رہا تھا اور آنکھوں سے آنسو بہہ کر گالوں کو تر کر رہے تھے ۔۔۔۔ پھر اُسے وہ نظر آئی تھی کیا یہ سچ تھا ؟؟؟ ہاں وہ وہی تھی جسے وہ ایک سال سے ڈھونڈ رہا تھا جس کے بغیر اُس کی زندگی ویران ہو گئی تھی۔۔۔ اُس نے بار بار پلکیں جھپکائیں کہ کہیں یہ خواب تو نہیں مگر نہیں وہ حقیقت تھی وہ ایک عورت کے ساتھ باہر پارکنگ کی طرف جا رہی تھی اس کا جسم پہلے سے بھرا بھرا لگ رہا تھا اور اس نے اپنے وجود کو ایک بڑی چادر سے اس طرح ڈھانپا ہوا تھا کہ پورا وجود اس چادر میں چھپ گیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ باہر کی طرف بھاگا اس وقت وہ سیکنڈ فلور پہ تھا بھاگ کر نیچے آتے وہ بری طرح گرتے ہوئے بچا مگر وہ رکا نہیں جب تک وہ پارکنگ میں پہنچا تب تک وہ غائب ہو چکی تھی وہاں کوئی نہیں تھا اُس نے پارکنگ میں کھڑے گارڈ سے بھی پوچھا مگر اس نے کہا کہ ابھی دو لیڈیز یہاں سے گئی ہیں اس نے گاڑی کا نمبر پوچھا مگر گارڈ کو نمبر یاد نہیں تھا ۔۔۔۔۔ وہ افسوس سے ہاتھ ملتا رہ گیا مگر وہ خوش تھا بہت خوش کہ وہ زندہ تھی اسے جو رب سے امید تھی اس کی خیریت کی وہ ٹوٹی نہیں تھی وہ بلکل ٹھیک تھی وہ خدا کا شکر ادا کر رہا تھا جس نے اس کی زندگی کو محفوظ رکھا تھا ۔۔۔۔۔وہ اسے ڈھونڈ لے گا وہ اسی شہر میں تھی اور اب اسے ڈھونڈنا مشکل نہیں تھا وہ بہت جلد اپنی منزل کے قریب ہو گا ایسا اسے لگتا تھا مگر کون جانے کہ منزل کے پاس پہنچ کے بھی وہ منزل پا نہیں سکے گا یہ تو بس خدا جانے۔۔۔۔۔۔۔۔۔

   0
0 Comments